سایہ
یہ ایک سچی کہانی ہے جو لاہور کے مضافات میں واقع ایک گاؤں "چک نمبر 27" کی ہے۔ یہ واقعہ 1990 کی دہائی کا ہے، جب ایک نوجوان طالب علم، ساجد، گرمیوں کی چھٹیوں میں اپنے نانا نانی کے گھر آیا تھا۔
سایہ
ساجد بچپن سے ہی بہت حساس طبیعت کا تھا، مگر کبھی کسی چیز سے اتنا خوفزدہ نہیں ہوا تھا جتنا کہ اُس رات ہوا۔
ایک رات ساجد نے سونے سے پہلے کمرے کی کھڑکی سے باہر جھانکا تو اُسے درختوں کے بیچ ایک سایہ سا محسوس ہوا۔ وہ سمجھا کوئی گاؤں والا ہوگا۔ مگر جب اُس نے دوبارہ دیکھا تو وہ سایہ وہیں موجود تھا — بالکل ساکت۔
ساجد نے نانی کو بتایا، مگر انہوں نے ہنستے ہوئے کہا، "ارے بیٹا، یہاں تو ایسے سائے روز آتے ہیں، تم نئے ہو، ڈر لگتا ہے۔"
اسی رات ساجد کو نیند نہیں آئی۔ وہ بار بار کھڑکی کی طرف دیکھتا رہا۔ اچانک اُسے محسوس ہوا جیسے وہ سایہ آہستہ آہستہ کھڑکی کے قریب آ رہا ہے۔ پھر ایک لمحے کو کھڑکی خودبخود کھل گئی۔ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کے ساتھ کمرے میں جیسے کوئی داخل ہو گیا ہو۔
ساجد کا سانس رکنے لگا۔ اُس نے کمبل میں منہ چھپا لیا۔ اُسے لگا کہ کوئی اُس کے پاس آ کر کھڑا ہے۔ پھر ایک سرد سی آواز آئی:
"میرا درخت واپس دے دو..."
اگلی صبح ساجد کو بخار تھا، اور وہ مسلسل یہی بڑبڑا رہا تھا:
"وہ درخت کٹا کیوں؟ وہ درخت کٹا کیوں؟"
نانا نے بعد میں بتایا کہ جس درخت کے پاس وہ سایہ تھا، اُسے کچھ دن پہلے کاٹ دیا گیا تھا، حالانکہ لوگ کہتے تھے کہ وہ درخت "بندھا ہوا" ہے — یعنی کسی جن یا سایے کی رہائش گاہ تھا۔ کاٹنے والے مزدوروں میں سے ایک پاگل ہو چکا تھا، اور دوسرے نے خودکشی کر لی تھی۔
ساجد کے واپس جانے کے بعد، نانی کے گھر کے قریب وہی درخت دوبارہ اُگ آیا — بغیر کسی بیج یا پانی کے۔
اور اب بھی، اگر کوئی رات کو اُس درخت کے قریب سے گزرے، تو اُسے وہی آواز سنائی دیتی ہے:
"میرا درخت واپس دے دو..."
(جاری ہے...)



Comments
Post a Comment